Tuesday 16 July 2019

کوئی ہارا نہیں لیکن انگلینڈ جیت گیا

کوئی ہارا نہیں لیکن انگلینڈ جیت گیا

میچ کے اختتام پر تقسیم انعامات کی تقریب کے بعد نیوزی لینڈ کے کھلاڑی سونے کے لیے بستروں پر گئے ہوں گے تو ان کی نیندیں ان سے کوسوں دور ہوں گی۔ شاید انہیں قدرت کے انصاف پر سخت تکلیف ہوئی ہو، شاید وہ اپنی غلطیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے رو پڑے ہوں گے، شاید وہ اپنی قسمت کو کوس رہے ہوں گے جبکہ دوسری طرف انگلش کھلاڑیوں نے تو اپنے بستروں پر چھلانگیں لگائی ہوں گی، انہیں قسمت نے قدرت نے اور ان کی محنت نے ثمریاب کر دیا اور وہ اس بات پر خوش ہوں گے کہ تاریخ نے انہیں فاتح کا خطاب دے ڈالا۔ یہ سوال تو اب ختم ہو گیا کہ وہ کس طرح سے جیتے، وہ کتنے خطرے میں تھے۔ اب بس ایک ہی حقیقت ہے کہ وہ ورلڈ چیمپئن ہیں۔ ایان مورگن نے تاریخ لکھنی تھی سو لکھ دی۔ کیا بات ہے کہ فیصلہ دو فائنل کے بعد آیا۔ فائنل میں ٹائی اور سپر اوور کے فائنل بھی ٹائی اور فیصلہ زیادہ چوکے چھکے لگانے پر رہا۔ ون ڈے کرکٹ کے 4045 میچز میں 37 مرتبہ ٹائی کے مراحل آئے ہیں۔ اور ورلڈ کپ کے ہونے والے 445 میچز میں یہ موقع صرف 4 مرتبہ آیا۔ 2011 کے بعد تو یہ پہلا موقع ہے کہ میچ ٹائی اور پھر ٹائی ہوا۔ انگلینڈ نے ا ب تک 8 اور نیوزی لینڈ نے 7 میچ ٹائی کیے ہیں اور دونوں ٹیموں کے درمیان یہ تیسرا میچ برابر رہا۔ اور غالباً سپر اوورز میں مقابلہ ایک سا رہنے کا پہلا واقعہ ہے۔
اپنی ٹیم کو وکٹری سٹینڈ تک پہنچانے میں سارا کردار جوفرا آرچر کا رہا۔ آخری اوور بڑا ہی اہمیت کا حامل تھا اور پھر ایک چھکا تو جان لیوا ہو سکتا تھا لیکن آرچر نے کمال مضبوط اعصاب سے لائن لینتھ سے گیندیں کروائیں اور کیویز کی فتح کے درمیان حائل رہے۔ ہر گیند پر خطرہ تھا لیکن غلطی کی گنجائش نہ تھی۔ آپ باؤنسر کرتے ہیں تو بڑا رسک تھا، آپ فل ٹاس پھینکتے ہیں تو ایک اور بڑا خطرہ، مارجن تو یہ تھا کہ چار گیندوں پر سات رنز، تین گیندوں پر پانچ اور پھر دو گیندوں پر تین اور ایک گیند پر دو رنز، لیکن آرچر شانت رہے، پُر اعتماد، پُر سکون۔ ان کا رویہ پورے ٹورنامنٹ میں ایسا ہی رہا۔ ان کے لیے ’ہیرو‘ کا لفظ بھی کم پڑتا ہے۔
میچ کو فتح میں تبدیل کرنے کا سہرا بن سٹوکس پر، کیا با ت ہے ایک بندہ جو ایک سال جیل میں رہا ہو۔ پبلک مقام پر کسی سے لڑ پڑا اور پولیس نے جیل بھیج دیا۔ پھر بھی کیا اسے اس دن کا انتظار تھا کہ وہ اپنے سارے گناہ معاف کروائے۔ اس پر ٹف پچ، مصمم ارادوں کے درمیان حائل مخالفین، وکٹیں چھوڑ کر جانے والے ساتھیوں کا پریشر اور فتح کی بھوک جیسے چیلنجز کا سامنا تھا، لیکن اس نے تاریخ لکھ دی۔ تین گیندوں پر آٹھ رنز ہی فتح کی راہ ہموار کرنے میں کام آئے۔
اب ذرا کیوی ٹرینٹ بولٹ پر ایک نظر ڈالیں۔ پورے ٹورنامنٹ میں ان کی بیٹری فل چارج رہی۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنی پہلی گیند پر وکٹ اڑا دی۔ اس میچ کے آخری گیند پر باؤنڈری سے براتھ وائٹ کا کیچ پکڑا اور فتح سمیٹی۔ لیکن کمند کہاں ٹوٹی، آخر ی میچ یعنی فائنل کے آخری دو اوور میں 30 رنز کھائے۔ 15 رن میچ کے فائنل میں اور 15 ہی رن سپر اوور میں اور یہ اکانومی ریٹ 4.74 کا بنتا ہے۔ یہاں ہی کیویز کا نقصان ہوا۔
مارٹن گپٹل کی بات کریں تو 9 میچز میں کوئی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھائی دی، لیکن ولیم سن کو ان پر پورا بھروسہ تھا اور یہ بھروسہ فائنل تک رہا۔ یہاں تک کہ گپٹل کو لائسنس ٹو لوز دے دیا گیا۔ آخر میں رن آؤٹ ہو گیا۔ یہ غلطی بھی کیویز کو لے بیٹھی۔
کتنی مزے کی بات ہے کہ کوئی ہارا نہیں، لیکن انگلینڈ جیت گیا۔ آپ اسے کرم ہی کہہ سکتے ہیں۔
 کر کٹ کا نیا سلطان۔۔۔۔۔انگلینڈ
دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والے مصنف برانٹ میک گل کہتے ہیں کہ’’ زندگی سسپنس، ہیجان انگیزی، جلال اور جوش سے بھری پڑی ہے جس میں سیراب بھی ہے اور اُمید بھی،اس کے ساتھ ساتھ کچھ کر گزرنے کی چاہ بھی ہوتی ہے، جس نے جوش دکھایا اس نے زندگی کا مزہ لے لیا‘‘۔ برانٹ میک گل کا یہ قول گزشتہ اتوار کو ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ 2019 کے فائنل کے موقع پر سولہ آنے پورا اترتا ہے اور مزے کی بات ہے کہ یہ قول ایان مورگن اور کین ولیم سن دونوں کی جدوجہد اور جوش کا عکاس ہے۔ ورلڈ کپ 2019 کا فائنل میچ کیسارہا؟یوں سمجھ لیں ایک داستان چھوڑ گیا۔یہ ایک ایسی جنگ تھی جو لمحہ بہ لمحہ فاتح کا نام تبدیل کرتی رہی، ایک لمحہ ٹرافی نیوزی لینڈ کی تو اگلے ہی لمحے یہ اعزاز انگلینڈکا، یوں سمجھ لیں کہ تنی ہوئی رسی پر چلنے کا ایک مقابلہ تھا جو کسی ایک لغزش کی پاداش میں گرنے کا سبب بن سکتا تھا۔ ایان مورگن اور کین ولیم سن دونوںنے کمال مہارت سے اس پر چلنے کا مرحلہ طے کیا اور پھر نتیجہ قسمت کے ہاتھ دے دیا جہاں کیویز مقدر ہار بیٹھے۔ میچ کا اختتام ٹائی پر ہوا، سپر اوور کا مرحلہ بھی ٹائی ہو ااور آخر زیادہ باؤنڈریز لگانے پر فیصلہ دیا گیا کہ اگلے چار برسوں کے لیے کرکٹ کا نیا سلطان انگلش اسکواڈ ہو گا اور اس طرح کرکٹ کے موجد ملک کو یہ اعزاز نصیب ہو ہی گیا جس کا خواب یہ لوگ گزشتہ 44 برسوں سے دیکھ رہے تھے۔ 1992 کے بعد گوروں کو 2019 میں فائنل کھیلنے کا موقع ملا اور اس موقع کو تاریخ ساز بنانے میں بن سٹوکس اور ان کے ساتھیوں نے ایان مورگن کی قیادت میں اہم کردار ادا کیا۔ بن سٹوکس وہی کرکٹر ہیں جو گزشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں چار چھکے کھا کر اپنی ٹیم کی شکست کی بڑی وجہ بنے تھے لیکن اس شکستہ دل ہار سے مایوس ہونے کی بجائے انہوں نےمحنت کی، ماڈرن کرکٹ کو سمجھا، نئی وکٹوں پر بھر پور پریکٹس کی، متوازن ٹیم کا حصہ بنے اور ساری دنیا کی کرکٹ ٹیموں سے بار بار مقابلے کیے اور آخر کار کی ان تھک محنت ان کی کامیابی کا پیغام لے کر آئی اور انگریز ورلڈ چیمپئن کا اعزاز پانے میں کامیاب رہے۔ میچ جیتنے کے بعد ایان مورگن نے بن سٹوکس کو ’’سپر ہیومن‘‘ کا خطاب دیتے ہوئے کہا’’ اس بڑے کرکٹر کی عظمت کا اندازہ اس کے مضبوط اعصاب سے لگایا جا سکتا ہے، ایکوریٹ باؤلنگ اور اٹیکنگ فیلڈنگ میں چوکے چھکے لگانا انہی کا کام تھا‘‘۔ مورگن کی یہ بات درست ہے کہ بن سٹوکس کے 84 رنز نے اپنی ٹیم کور سکیو کیا۔ بٹلر اور بن سٹوکس کی 110 رنز کی بننے والی پارٹنر شپ نے نیوزی لینڈ کے بنائے گئے خطرناک 241 رنز کا تعاقب کیا، آخر گیند پر ان سے مقابلہ برابر کر کے انگلش ٹیم کو وینٹی لیٹر سے اتار کر نارمل سانس لینے پر لانے کا سہرا بھی بن سٹوکس کے سر ہی ہے۔ ان کا کردار یہاں تک نہ تھا بلکہ سپر اوور میں ملنے والے 15 رنز میں ان کے شاندار 8 رن بھی شامل ہوئے۔ ہیجان انگیز میچ کا ہر لمحہ سسپنس اور تجسس سے بھرپور رہا، یہاں تک کہ آخری گیند پر جیسن روئے اور بٹلر کے کمبی نیشن نے گپٹل کو رن آؤٹ کر کے مقابلہ پھر ٹائی پر لاکھڑا کیا۔ شائقین کرکٹ کے لیے یہ خبر حیران کن ہو گی کہ 28 سالہ بن سٹوکس کا تعلق نیوزی لینڈ سے ہے لیکن اس نے اپنی ٹیم کے لیے اپنے ہی ملک کے خلاف جان لڑا دی۔ بن سٹوکس نے کرکٹ ورلڈ کپ 2019 میں چار سو سے زائد رنز بنائے ہیں۔
فائنل میں دونوں ٹیمیں برابر کی ٹکر پر تھیں اورمقابلہ برابر رہا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں ٹیموں کو مشترکہ عالمی چیمپئن قرار دے دیا جاتا کیوں کہ ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ میچ ٹائی ہی رہا لیکن آخر کار تکنیکی بنیاد پر انگلش ٹیم کو فاتح قرار دیا گیا۔ نیوزی لینڈ الیون شدید مایوسی کا شکار تو تھی گپٹل دیر گئے تک روتے دیکھے گئے۔ کیویز کے شائقین بھی سکتے کی حالت میںتھے لیکن یہ ہار بھی ان کی عزت و تکریم کا سبب بنی۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ نیوزی لینڈ نے مقابلے میں کسی جگہ کمزوری دکھائی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ موسٹ فیورٹ ٹیم مورگن الیون کے بارے میں یہی خیال تھا کہ 241 رنز کے بعد یہ لوگ اس میچ کو یکطرفہ نہ سہی لیکن فتح و شکست کا تناسب 60:40 ضرور ہو گا۔ یہاں کیویز کو داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے یہ تناسب ففٹی ففٹی کر دکھایا اور آخری لمحے تک گورے کھلاڑیوں کو دبائو میں رکھا۔ انگلینڈ کی فتح کے جو اثرات مرتب ہوں گے ان میں سے ایک اثر یہ ہو گیا کہ کلاسک کرکٹ کا نیا جنم ہو گا، کرکٹ کو نئے سرے سے فروغ ملے گا اور وہ لوگ جو تیز رفتار کرکٹ کو متعارف کروانے کے لیے روایتی کرکٹ کا گلا گھونٹ رہے تھے ان کی کوششوں کو جھٹکا لگے گا۔ اس فتح سے نہ صرف ون ڈے کرکٹ کو نئی زندگی ملے گی بلکہ ٹیسٹ کرکٹ کا پھر سے احیاء ہو گا ، یعنی کرکٹ کا نیا جنم ہو گا۔ دنیا بھر کی ٹیموں کے لیے بھی یہ فتح ایک بڑا سبق ہے۔ جس طرح انگلش ٹیم نے مسلسل چار برس محنت کر کے یہ مقام پایا، یہ جذبہ دیگر ٹیموں کے لیے مشعل راہ ہونا چاہیے۔
ورلڈ کپ 2019 کے فائنل پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو یہ مضبوط اعصاب، بھرپور مہارتیں دکھانے اور کچھ غلطیوں کے مجموعے کا نام ہے۔ اس میں قسمت اور فطرت کا انگلش ٹیم کا ساتھ دینا شامل کر لیا جائے تو بات مکمل ہو سکتی ہے۔ انگلش ٹیم کی جیت میں امپائروں نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آئی سی سی نے سٹیج ہی انگلینڈ کے لیے سجایا تھا لیکن اس بات کو بڑھاوا نہیں دیا جا سکتا اس لیے کہ ایک ادارے کے لیے کوئی انفرادی ٹیم اہم نہیں ہوتی جتنا کہ کرکٹ، کرکٹ کے معاملات اور اس کے فروغ دینے والے ادارے آئی سی سی کو اس میگا ایونٹ کے شاندار انعقاد پر مبارک باد دینا بنتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک تجویز بھی ہے کہ یہ ادارے کرکٹ کے قوانین پر نظرثانی کریں اور نئے دور کے تقاضوں کے مطابق اس میں تبدیلیاں کریں، جیسے رن ریٹ کی بنیاد پر فاتح قرار دینا قابل قبول نہیں ہے۔ اس قانون کی زد میں بھارت اور پاکستان کی ٹیمیں آئیں اور متاثر ہوئیں۔ ویرات کوہلی تو باقاعدہ اس صورتحال پر پھٹ پڑے، ان کا کہناتھا کہ ایک ٹیم پورے ٹورنامنٹ میں فاتح چلی آ رہی ہے کہ اچانک سے رن ریٹ آڑے آ جاتا ہے اور وہ ٹیم ٹورنامنٹ سے باہر ہو جاتی ہے۔ ایسی ہی بات مکی آرتھر نے بھی کی تھی کہ پاکستان اور نیوزی لینڈ دونوں کی ٹیموں کے گیارہ گیارہ پوائنٹس تھے لیکن فیصلہ اوور آل رن ریٹ کی بنیاد پر ہوا۔ یہ موازنہ ہیڈ ٹو ہیڈ میچ پر ہونا چاہیے۔ آئی سی سی کو اس فیکٹر پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ایک امپائر ساری ٹیم کی کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے اور اس کے ایک غلط فیصلے کی قیمت ساری ٹیم کو چکانا پڑتی ہے۔ فائنل میچ کی پہلی گیند پر جیسن روئے کا آؤٹ آئوٹ تھا لیکن امپائر نے ناٹ آؤٹ قرار دیا۔ گیند ان کے پیڈ کو چھو کر لیگ سٹمپ کو ہٹ کررہی تھی۔ اتنے بڑے آؤٹ پر بے انصافی کے خلاف ولیم سن نے ریویو بھی لیا لیکن ان کی اپیل کو خارج کر دیا گیا۔ یہ پہلی بے انصافی تھی جو کیویز کے ساتھ برتی گئی۔ ایک میچ میں پہلے دس اوورز میں چھ ریویوز لیے گئے تھے۔ یہ ریویو لینا امپائر کے فیصلے کے خلاف اپیل ہی ہوتی ہے۔ ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے میچ میں ریویوز لینے کی بہتات رہی۔ امپائروں کے تقررکرتے وقت ان کے ریکارڈ کو مدِنظر رکھنا ضروری ہونا چاہیے۔
فائنل میں اوور تھرو پر لیے جانے والے چھ رنز پر بھی کئی سوال اٹھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق آئی سی سی کے لاء 19.8 کے مطابق اوور تھرو یا فیلڈر کی مرضی کا ایکٹ ہوتا ہے۔ اس قانون کے مطابق اگر کسی فیلڈر کی وجہ سے گیند باؤنڈری پار چلی جائے تو اس چوکے کو تو سکور میںشامل کیا جاتا ہے لیکن بھاگ کر لینے والے رنز میں سے صرف وہی رن شامل کیا جائے گا جو گیند کے باؤنڈری لائن کراس کرنے سے پہلے بنائے گئے ہوں۔ اس تعریف کی رو سے انگلینڈ کو چھ کے بجائے پانچ رنز دینے بنتے تھے۔ بات درست بھی ہے جب نیوزی لینڈ کے کھلاڑی نے تھرو پھینکی تو علی رشید دوسرے رن کے لیے اپنے پارٹنر کو کراس نہیں کر پائے تھے۔
فائنل کے اختتام پر کین ولیم سن کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک خوبصورت انسان ہیں جن پر 14 جولائی کا دن مہربان نہ تھا اور ان کے اور فتح کے درمیان قسمت آڑے آ گئی اور ٹرافی ہاتھ سے پھسل گئی۔ آپ منصوبہ بندی کر سکتے ہیں، سائنسی بنیادوں پر تجزیے کر سکتے ہیں اور کریز کا ڈیٹا اکٹھا کرکے کرکٹ کی دانش بکھیر سکتے ہیں لیکن قسمت ایک ایسا فیکٹر ہے جس کے سامنے ہر کوئی بے بس ہوتا ہے۔ جتنی مرضی محنت اور تدبیریں کر لی جائیں سب بے کار ہو جاتی ہیں اور آپ مقدر کے رحم و کرم پر بے یارو مددگار کھڑے ہوتے ہیں۔ کئی جگہوں پر قسمت نے ولیم سن کو لتاڑا۔ ولیم سن نے پورے ٹورنامنٹ میں 578رنز بنائے اور چوتھے نمبر پر فائز ہوئے۔ انہیں پلیئر آف دی ٹورنامنٹ قرار دیا گیا۔ وہ مین آف دی ہارٹ آف دی پیپل بھی رہے۔ بحث کرنے کو بہت سی باتیں ہیں لیکن حاصل بحث یہی ہے کہ آج کسی ٹیم کی نہیں کرکٹ کی فتح ہوئی ہے۔
٭٭٭
نیوزی لینڈ کیوں ہارا؟
لارڈز کی گراؤنڈ میزبان ملک کے لیے خوش قسمت تصور ہوئی، جہاں ورلڈ کپ ہسٹری کا سب سے عظیم اور ہیجان انگیز میچ کھیلا گیا اور انگلینڈ نے پہلی مرتبہ خود کو جیتنے والی ٹیموں کی فہرست میں اپنا نام رجسٹرڈ کروایا۔ اس ٹاپ گرین وکٹ پر 242 رنز کا ہدف مشکل ہی تھا اور اوپر سے انگلینڈ کی ٹیم کے ٹاپ بلے باز بھی جلدی آؤٹ ہو گئے جس میں جونی براسٹیو، جیسن روئے، جے روٹ اور ایان مورگن شامل ہیں۔ ساری ذمہ داری بن سٹوکس اور بٹلر پر عائد ہوئی تو ان دونوں نے 110 رنز کی خوبصورت پارٹنر شپ لگائی۔ میچ کی ایک خوبصورتی ہے کہ کیویز باؤلرز نے آخری دس اوور میں گورے کھلاڑیوں کو باندھ کر رکھا اور رنز نہیں بنانے دئیے۔ یہاں تک کہ آخری دو اوورز میں 24 رنز کا ہدف تھا۔ یہ تو قدرت کی طرف سے مدد آئی کہ اوور تھرو کے چھ رنز مل گئے اور بولٹ نے کیچ پکڑ لیا، لیکن پاؤں باؤنڈری لائن سے چھو گیا اور آؤٹ کی بجائے چھ رنز دینے پڑ گئے۔ آخری دو گیندوں پر تین رنز درکار تھے کہ میچ ٹائی ہو گیا۔ سپر اوور مرحلے میں بھی یہی ہوا اور فیصلہ باؤنڈریز کی تعداد پر ہوا اور انگلینڈ کو فاتح قرار دے دیا گیا۔ مقابلہ برابر تھا لیکن پھر بھی کچھ عوامل ایسے ہیں جو کیویز کی شکست کا باعث بنے۔ آئیے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
1۔ مڈل اوورز میں وکٹ کا نہ لے پانا
نیوزی لینڈ کے ماٹ ہنری، کولن ڈلی گرینڈ ہوم اور فرگوسن نے غیر معمولی باؤلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگلش اسکواڈ کے ٹاپ آرڈر کو ادھیڑ کے رکھ دیا۔ نیشم کی گیند پر فرگوسن نے ایان مورگن کاانتہائی خوبصورت کیچ لے کر انگلینڈ کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا، لیکن بن سٹوکس اور بٹلر نے جوابی وار میں کیویز کی باؤلنگ کی توپیں خاموش کروا دیں۔ بٹلر نے 60گیندوں پر 59 رنز بنائے۔ بن سٹوکس بھی پورے جوبن پر تھے۔ یہاں ولیم سن سے غلطی ہوئی کہ انہوں نے گرینڈ ہوم اور جمی نیشم سے ہی باؤلنگ جاری رکھوائی۔ ان باؤلرز نے مڈل کے پانچ اوور زمیں بٹلر کو موقع دے دیا کہ وہ کیویز باؤلرز کے دباؤ کو ختم کرسکیں۔
2۔ ڈیتھ اوورز کی کوشش
نیوزی لینڈ نے 40 ویں اوور میں 79/5 1رنز بنائے تھے۔ ٹائم لیتھم اور کامن گرینڈہوم کریز پر تھے اس موقع پر شائقین کا خیال تھا کہ ابھی چھ وکٹیں باقی ہیں اور یہ دونوں ان ڈیتھ اوور میں فائر ورکس شروع کریں گے۔ مطلب چوکے چھکوں کی برسات ہو گی، لیکن بد قسمتی سے یہ یہیں رکا رہا اور مومینٹم بن نہ پایا۔ آرچر نے کمال باؤلنگ دکھائی اور آخری پانچ اوورز میں صرف 22 رنز دئیے۔ یہی ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ یہاں 20 سے 30 رنز اور بن جاتے تو ان کا تعاقب کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا۔ ان کے مقابلے میں بولٹ نے آخری دو اوورز میں 24 رنز بنائے اور اپنے جیتنے کی امیدوں کے چراغ کو روشن کیا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
3۔ بلے بازوں کی سستی
بہت اچھا سٹارٹ لے کر کیویز درمیانی اوورز میں قدرے ٹھس ہو گئے۔ ولیم سن کی وکٹ سے روانگی پر رنز بننا بند ہوئے اوررنز کی رسد تھم سی گئی۔ ان کے جانے کے بعد کئی اوورز تو باؤنڈری ہی نہ لگ سکی۔ مڈل آرڈر بلے باز شروع کے سیٹ ہونے والے ٹمپو کو برقرار رکھنے میں بھی ناکام رہے۔ دھیرے دھیرے سے رنز بنانا ہی مہنگا پڑ گیا، لیتھم نے تھوڑی ہمت تو دکھائی تھی، لیکن دوسرے اینڈ سے مدد نہیں مل پارہی تھی۔ قیاس تھا کہ کیویز 270-80 رنز تک پہنچیں گے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ یوں کہہ لیں کہ بلے بازوں کی کمزوریوں کی وجہ سے بڑا ہدف نہ دیا جا سکا۔